رو کر کہنے لگی تم سچ کہتی تھی خاوند کو نوکروں کا عادی نہ کرو‘ ورنہ پچھتاؤگی۔ نبیل نے اسی لڑکی سے شادی کرلی ہے کیونکہ اس نے اس کی اتنی خدمت کی ہے کہ اب اسے اپنا وجود اس کے بغیر نامکمل نظر آتا ہے‘ میکے آئی تو بھابیوں کے رویوں نے یہ حال کردیا ہے
(بیگم مخدوم شیر عالم ‘ ملتان)
سویرا کی شادی متوسط گھرانے میںہوئی‘ سویرا ماشاء اللہ جہیز میں دو مربع زمین لیکر آئی تھی‘ نبیل احمد سرکاری ادارے میں بطور کلرک کام کرتا تھا۔ سویرا کو اپنی زمین کا انتہائی تکبر تھا‘ اس نے ایک لڑکی کام کیلئے رکھ لی‘ صبح ناشتے کا وقت ہوتا تو وہی لڑکی نبیل احمد کو ناشتہ کھلاتی‘ اکثر وہ بغیر ناشتے کے صرف دودھ پی کر چلا جاتا۔ صبح لیٹے لیٹے وہ اپنے خاوند کو رخصت کردیتی۔ روٹی مانگتا تو اسی لڑکی سے حتیٰ کہ پانی بھی نوکرانی ہی پلاتی حالانکہ بعض سمجھ دار عورتیں گھر میں چاہے دس نوکر ہوں خاوند کو اپنا عادی کرتی ہیں اس کے کپڑے‘ اس کا کھانا‘ اس کے آرام کا اپنی جان پر تکلیف دے کر خودخیال کرتی ہیں۔ کتنا ہی سخت خاوند ہو عورت اپنی خدمت سے اسے رام کرلیتی ہیں۔ سویراسارا دن وہ اپنی زمین سے آئی ہوئی آمدنی کے حساب کتاب میں مشغول رہتی ایک دن مجھے اس کے گھر رہنے کا اتفاق ہوا میں نے اسے سمجھایا کہ بی بی لڑکی چاہے گورنر کی بیٹی ہو یا اس نے پی ایچ ڈی کی ہو گھر بسانے کا طریقہ ایک ہے مرد کے دل کا راستہ معدے سے ہوکر جاتا ہے اگر وہ نوکرانی کا عادی ہوگیا تو تمہارے میکے جانے سے اسے کوئی کمی محسوس نہ ہوگی اگر نوکر پر انحصار کرناہو تو پھر لوگ شادی کیوں رچاتے؟ فوراً مجھے جواب دیتی گھر تو میرے خرچے پر چل رہا ہے یہ کہاں جائے گا؟ میں خاموش ہوگئی۔ وقت گزرتا گیا‘ سویرا دو بچوں کی ماں بن گئی‘ بات بات پر منہ پھلانا اس کا شیوہ بن گیا۔ اس دوران نبیل نے امتحان دیا اور وہ اس ادارہ کا منیجر بن گیا۔ ایک دن میں اس کے گھر گئی تو نوکرانی کھڑی ہوئی تھی کہنے لگی باجی مجھے صاحب کی روٹی کیلئے چھوڑ گئی ہے۔ خود وہ اپنےبھائی بھابی کے ساتھ ناران‘ کاغان سیر کیلئے گئی ہیں۔ دو سال تک میرا اس سے ملنا نہیں ہوا ایک دن میں ایک مقامی سکول میں اپنی دوست سے ملنے گئی وہ بھی بچے کو داخل کرانے آئی ہوئی تھی‘ بہت بُری حالت میں رو کر کہنے لگی تم سچ کہتی تھی خاوند کو نوکروں کا عادی نہ کرو‘ ورنہ پچھتاؤگی۔ نبیل نے اسی لڑکی سے شادی کرلی ہے کیونکہ اس نے اس کی اتنی خدمت کی ہے کہ اب اسے اپنا وجود اس کے بغیر نامکمل نظر آتا ہے‘ میکے آئی تو بھابیوں کے رویوں نے یہ حال کردیا ہے‘ جائیداد بھائیوں نے دھوکے سے لکھوالی ہے۔ کاش! میں یہ نہ سوچتی کہ میری اپنی آمدنی ہے‘ تم سچ کہتی تھیں کہ مرد کو اتنا اپنا عادی کرو کہ وہ تمہارے بغیر پانی بھی نہ پی سکے یہ بات ہر ماں کو بیٹی کی شادی سے پہلے سمجھانی چاہیے۔
تالی بجاتے ہی سانپ نڈھال
(پرویز حسین اعوان‘ فیصل آباد)
محترم حکیم صاحب السلام علیکم! میرے والد صاحب ریلوے پولیس میں حوالدار تھے۔ والد صاحب کاسانپ کا دم‘ ڈاڑھ کا دم اتنا آزمایا ہوا تھا کہ ساتھ والے گاؤں سے لوگ شاہ جی کہہ کر پکارتے تھے اور گھر کا جب پتہ پوچھتے تو کہتے ہم نے شاہ جی کے گھر جانا ہے۔ ڈاڑھ کا دم کیل کرتے تھے کہ درخت وغیرہ میں گاڑھ دیتے تھے۔ سانپ کا دم سبز ٹہنی سے کرتے تھے اور لوگوں کو دیسی دوائی دیتے تھے ۔ کسی بھی چیز کے پیسے نہیں لیتے تھے ۔ میرے خیال میں ان کو دوائی دینے کا شوق تھا۔ تقریباً ہر مریض کو آرام بھی آجاتا تھا اور گھر سے چائے بھی پلاتے تھے۔ 1989ء میں آپ وفات پاگئے اس وقت ان کی عمر 75 سال تھی۔ والدصاحب کا ایک واقعہ ہے کہ ایک دفعہ اپنے کھیتوں کی طرف جارہے تھے تو ایک بہت بڑا سانپ جو کہ زمینداروں کو روکتا تھا اور سڑک میں آجاتا تھا۔لوگ اس سے بہت ڈرتے تھے‘ چونکہ والد سانپ کا دم کرنے میں مشہور تھے تو ایک دن والد صاحب کو وہ سڑک پر مل گیا آپ نے اپنے گرد دائرہ لگایا اور دم پڑھ کر سانپ کی طرف منہ کرکے تالی بجائی تو سانپ نے دیکھ کر منہ دوسری طرف کرلیا۔ آپ نے پھر دم کرکے تالی بجائی سانپ نے دیکھ کر پھر منہ موڑ لیا۔ تیسری دفعہ جب والد صاحب نے دم کرکے تالی بجائی تو اس نے والد صاحب کو دیکھا اور نڈھال ہوکر گر گیا اب کیل آچکا تھا سانپ آدھا کھوڑ میں اور آدھا باہر رہ گیا۔ والدصاحب خود نہیں مارتے تھے انہوں نے میرے تایا جان کو آواز دی وہ سمجھ گئے کہ آج ’’شاہ جی‘‘ نے سانپ کو گھیرلیا ہے وہ آئے اور انہوں نے سانپ کو مارا۔ یہ بات پورے گاؤں میں پھیل گئی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں